جامعہ استنبول میں ترکی کی جنگ آزادی کے 100 سال کی مناسبت سے منعقدہ بین الاقوامی مذاکرے" مشرق کے دو عظیم شاعر: محمد اقبال اور محمت عاکف ائیرصوئے " سے سفیر پاکستان محمد سائرس سجاد قاضی کا خطاب، 30 اپریل 2019


صدر  آزاد جموں   و کشمیر جناب سردار مسعود خان صاحب
 منتظم اعلیٰ جامعہ استنبول  جناب پروفیسر ڈاکٹر محموت آق صاحب 
صدر نشین  شعبہ اردو،  جامعہ استنبول ، جناب پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئدان صاحب
پاک- ترک دوستی کے عظیم سفیر جناب پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار صاحب
 ترکی، پاکستان اور دنیا کے دیگر خطوں سے آئے ہوئے معزز مہمانان گرامی۔
 اسلام علیکم!
 میرے لیے یہ امر باعث صد افتخار ہے کہ اس اہم بین الاقوامی مذاکرے میں  آپ سے ہم کلام ہوں۔   یہ میرے لیے نہایت  فخر  اور اعزاز کی بات ہے کہ برادر ملک ترکی میں وطن عزیز پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہوں۔  میری ذمہ داریاں  ایک ایسے مقدس رشتے کی پاسداری اور آبیاری ہے۔  جسکی بنیاد ہمارے آباؤ اجداد نے بے شمار قربانیاں دے کر  رکھی۔  یہ ایک مقدس امانت ہے۔  جو کہ ہمیں ہمارے اسلاف نے سونپی۔  آج ہم سب اس بات کا اعتراف کرتے ہیں ۔  اور اس مقدس رشتے کے معماروں کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ کیونکہ پاکستان،  ترکی کے بے مثال تعلقات ہمارے آباؤ اجداد کی بے لوث قربانیوں کی مرہون منت ہیں۔ 
 انہی تعلقات کے  دو اہم  معمار، پاکستان کے قومی شاعر،  مشرق کے عظیم فلسفی علامہ محمد اقبال اور ترکی کے عظیم شاعر اور قومی ترانے کے خالق محمت عاکف ائیرصوئے ہیں۔ 
 یہ دونوں شخصیات ہمعصر بھی  تھیں اور ہم خیال بھی۔ اگرچہ ان دونوں عظیم ہستیوں کے درمیان کبھی بھی باضابطہ ملاقات نہیں ہوئی ۔ لیکن یہ آپس میں باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے کے خیالات و افکار سے مستفیض ہوتے رہے۔
اقبال اور عاکف کا دور حیات دو چار سالوں کے فرق سے  تقریبا ایک ہی ہے۔ پھر دونوں  کے ملک بھی ایک ہی جیسے حالات سے گزر رہے تھے۔  ہم سب کو علم ہے۔  کہ بیسویں صدی میں تمام ممالک اسلامیہ سیاسی اور تہذیبی  اعتبار  سے زوال پذیر تھے۔  برصغیر پر انگریز سامراج مسلط تھی اور مسلمانانِ  جنوبی ایشیا ء غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔  اُن میں ذوق عمل کا فقدان تھا ۔ اور معاشرتی،  معاشی اور سماجی لحاظ سے بے انتہا آزمائشوں سے نبرد آزما تھے۔
 دریں اثناء،  ترکی  بھی  پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا  غالب  یورپی اقوام اُسے غلام بنانے کے درپے تھیں۔ مایوسی کا یہ عالم تھا ۔ کہ عثمانی خلافت اور مسلم دنیا کی پہچان کے حوالے سے جانے والا شہر استنبول بھی اتحادیوں کے زیر تسلط آ چکا تھا اور ازمیر یونانیوں کے  پنجۂ استبداد میں پھنس  چکا تھا۔ 
 اس ابتلا ء اور زوال کے دور میں ایک طرف غیر منقسم ہندوستان میں قائد اعظم محمد علی   جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلم لیگ آزادی کی تحریک چلا رہی تھی ۔ جبکہ دوسری جانب ترکی میں غازی مصطفی کمال اتاترک کی قابلِ رشک قیادت میں   ترک قوم متحد ہوکر اپنے وطن ِ عزیز کو دشمن کے چُنگل سے آزاد کرانے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔
دونوں طرف آزادی کی اِن ہیجان انگیز تحریکوں  میں فکری اور نظریاتی سطح پر جنوبی ایشیا میں علامہ اقبال اور ترکی میں  محمت عاکف اپنے روح پرور او ر بصیرت افروز خیالات کو اپنی شاعری کے ذریعے اپنی اپنی اقوام کے لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔  اور اُ نہیں جنگ آزادی کی جدوجہد میں شرکت کے لیے بیدار کر رہے تھے۔ 
اقبال اور عاکف کے جملہ افکار و نظریات میں  بہت ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔  دونوں کے دلوں میں مسلمانوں کی حالت زار کی بہتری  اور فلاح کے لیے تڑپ موجود تھی۔ دونوں اپنی اپنی قوم کو جدوجہد پر اُکساتے رہے ۔ اور عالم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کوششیں کرتے رہے۔   دونوں شخصیتیں مغربی تہذیب اور مغرب کے تصوراتِ سیاست کے مخالف اور اسلامی تہذیب کے حامی تھے۔ دونوں اُمید اور روشن مستقبل کی نوید دیتے رہے۔ دونوں مولانا جلال الدین رومی سے بھی یکساں والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔  علامہ اقبال تو  رومی کو پیر ومرشد تسلیم کرتے تھے۔  یہی حال عاکف کا بھی تھا۔ 
مفکرِ پاکستان اور عالم اسلام کو آزادی اور اتحاد کا پیغام دینے والے شاعر علامہ محمد اقبال کو ترکی میں متعارف کرنے والی پہلی شخصیت خود محمت عاکف  ائیر صوئے ہی تھے۔ جو عرب اور مصر میں اپنے قیام کے دوران اقبال کی شاعری سے متعارف ہو چکے تھے اور ان کے افکار   سے بے حد متاثر تھے۔  چناچہ ترکی واپسی پر عاکف خود بھی اس قسم کےافکار کا پرچار کرنے لگے۔
 مرحوم ظفر حسن  ایبک فرماتے ہیں"  جب ترک قوم اور مسلم دنیا طرابلس اور بلقان کی جنگ میں ناکامی پر خون کے آنسو رو رہی تھی۔  عین اسی دوران محمد اقبال اپنی سحر انگیز شاعری اور ولولہ انگیز تقریروں سے برصغیر کے طول و عرض میں مسلمانوں کے دلوں میں ترک قوم سے یکجہتی اور والہانہ محبت کا جذبہ اُبھار رہے تھے۔ وہ ہمیں اپنے اردگرد جمع کرتے۔ جس میں ہم اپنے دوستوں کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ۔ اور وہ ہمیں ترکوں کی بہادری اور جرأت کے بارے میں بتاتے۔  جو کہ اپنے سے کئی گنا   کثیر اتحادی فوجوں کے سامنے ڈٹ کرمقابلہ کر رہے تھے۔" 
 بقول اقبال:                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                             اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

چند ہی سال کی جدوجہد میں اتاترک  نے ترکی کو استعماری قوتوں  سے آزاد کرایا۔  یہ کامیابی دنیا کے دوسرے مسلمان  ممالک کے لیے ایک مثال بن گئی۔  جب محمد اقبال کو اتا ترک کی کامیابی اور ترکی کی حیات نو کی  دل افروز خبریں پہنچی   تو اقبال نے اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین آدمی سمجھا۔
روشنی کی دوسری کرن جو اقبال نے دیکھی وہ محمد علی جناح تھے۔ جناح کی غیر متزلزل قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا خواب کئی سال بعد " پاکستان"  کی شکل میں شرمندۂ تعبیر ہوا۔  اسی طرح امید کی دو کرنیں  جو کہ اس عظیم  مفکر نے تصور کیں  آج ہمارے سامنے مملکتِ  خدادادِ  پاکستان اور جمہوریہ  ترکی کی صورت میں موجود ہیں۔   اقبال کی ترک دوستی درحقیقت برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کی مشعل راہ بن گئی۔  اگرچہ اقبال اور عاکف  حیات نہیں ۔ لیکن جس دوستی اور  بھائی چارے کی ان دونوں شخصیات نے بنیاد رکھی۔ وہ تا قیامت جاری رہے گی۔ 
معزز سامعین۔
اقبال اور عاکف کی یادوں اورافکارکو  اپنی نئی نسل تک منتقل کرنے کے سلسلے میں حکومت ِ پاکستان  اور حکومتِ  ترکی  نے علامہ اقبال کی یوم ِ ولادت اور سفارتی تعلقات کی 70ویں سالگرہ کی مناسبت سے 2017  میں اقبال اور  عاکف سے منسوب ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجراء کیا۔ ہماری کوشش ہے کہ اقبال کی ولادت اور وفات کے  مناسبت  سے ہر سال ترکی کے طول و عرض میں تقریبات منعقد ہوں ۔ اسی طرح گزشتہ  سال علوم ِ شرقیہ،  جامعہ پنجاب  اوریونس ایمرے  ثقافتی مرکز کے اشتراک سے اقبال اور عاکف کے حوالے سے ایک بین الاقوامی مباحثے  کا انعقاد کیا گیا۔   اور دونوں شخصیات کی  زندگی کے جملہ پہلو  اُجاگر کیے گئے۔  مجھے یقین ہے۔ کہ ہم اسی طرح کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ 
خواتین و حضرات۔
 میں اس موقع پر اُ ن کاوشوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کہ دونوں ممالک  ثقافتی   اور عوامی روابط کو مزید بڑھانے کے سلسلے میں کر رہی ہیں۔  حکومت ِ پاکستان نے لاہور اور کراچی میں یونس ایمرے ثقافتی مراکز کے قیام میں تمام ضروری اعانت فراہم کی ہے۔  اور یونس ایمرے ثقافتی مرکز کا لاہور میں کامیاب سرگرمیوں کا  یہ تیسرا سال ہے ۔ دونوں حکومتیں  مسلسل کوششیں کر رہی ہیں ۔ کہ ہماری جامعات  کا آپس میں گہرا رابطہ ہو۔ پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے درجنوں سکالر ترکی کی چوٹی کی جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔  اور ترک جامعات میں  زیرِ تعلیم پاکستانی طلباء  کی تعداد تقریبا 2  ہزار ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ اتنی ہی تعداد میں ترک  طلباء پاکستانی جامعات میں داخلہ لیں۔  اس مقصد کے حصول کے لیے آپ سب کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا ۔
اسی طرح نوجوان نسل کو ہمارے دیرنہ تاریخی اہمیت کے حامل تعلقات  سے روشناس کرانے کے لیے پاکستانی سفارتخانہ  کئی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس میں چغتائی  فنی مقابلہ،  جناح نوجوان مصنف مقابلہ،  وغیرہ سر ِ فہرست ہیں۔  جس میں ترکی کے تمام صوبوں سے ہائی سکول کے طلباء  بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
 آخر میں،  میں ایک مرتبہ پھر اس مذاکرے کے منتظمین بشمول جلال صوئیدان اور خلیل طوقار   اور تمام مندوبین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور امید رکھتا ہوں   کہ  یہ تاریخ ساز محفل  اقبال اور عاکف  کی زندگیوں کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کرنے اور پاکستان -   ترکی  ثقافتی تعلقات کو مزید پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوگی۔ 
پاکستان - ترکی  دوستی زندہ باد 
***

No comments:

Post a Comment